تحریر: سید سبطین شاہ
چند روز قبل دارالحکومت اسلام آباد کی ایک پس ماندہ بستی علی پور فراش میں قبائلی علاقے مہمند کے ایک باشندے نے شکایت درج کروانے کے لیے شہزاد ٹاؤن پولیس تھانہ سے رجوع کیا۔ مدعی کے بقول، ان کی دس سالہ بچی فرشتہ لاپتہ ہے اور انہیں شک ہے کہ اسے اغوا کرلیا گیا ہے۔ پولیس نے شکایت کنندہ کی درخواست تو وصول کرلی لیکن چار روز تک مقدمہ درج نہیں کیا۔ اسی اثناء میں پانچویں روز بعد اس معصوم بچی کی لاش اسلام آباد کے ایک جنگل سے ملی اور ڈٓاکٹروں کے مطابق، اس کمسن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے لاش کو ویرانے میں پھینک دیا گیا۔
اس معصوم بچی کی میت کو اٹھا اسلام آباد میں احتجاج کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اس کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا دی جائے اور غفلت برتنے والے پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جائے۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران بہت سے نعرے بھی لگائے گئے۔ یہ نعرے ایک حد تک تو دائرے کے اندر ہیں۔ مثلاً ’’اسلام آباد پولیس مردہ باد، میڈیا والے مردہ باد، پاکستانی عدالت مردہ باد، ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے، فرشتہ ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔‘‘ ظاہر ہے، ظلم ہوا ہے، اس طرح کے نعرے لگیں گے لیکن ان نعروں کے ساتھ ساتھ کچھ مزید نعرے بھی لگائے گے۔ مثلاً ’’لے کررہیں گے، آزادی، فرشتہ تیرے خون سے انقلاب آئے گا، ہمارے محافظ ہمارے قاتل۔‘‘
ان نعروں پر بھی غم و غصہ اور جذباتی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ حیران کن بات نہیں بلکہ یہ ریاست کی غلفت کا نتیجہ ہے جو کئی عشروں سے جاری ہے۔ یہ وہی لوگ نعرے لگائے رہیں جن کی محب الوطنی پر ریاست فخر کیا کرتی تھی۔ یہ صورتحال ہماری ماضی کی غلطیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ریاست کی دانستہ اور نادانستہ غفلت کی وجہ سے ملک کے طول عرض میں مذہبی انتہاپسندی کے نام پر لوگوں کی جان و مال کی حرمت کو بری طرح پامال کیا گیا۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں کے غیور عوام اس سے بری طرح متاثر ہوئے۔ اگرچہ یہ حالات ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے کئی دہائیوں کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں لیکن اس موضوع کو آسانی سے سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی بعید میں جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمیں ’’آزادی‘‘ کے ان نعروں کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب میں ہی جھانکنا کافی ہے۔ پچھلے سال جنوری کی بات ہے کہ وزیرستان کے ایک خوبصورت نوجوان نقیب اللہ محسود کو کراچی پولیس نے مبینہ طور پر اغوا کیا اور دوران حراست پر شدید تشدد کے باعث ان کی موت واقع ہوگئی۔ قتل کے اس بہیمانہ واقعے میں لواحقین کو انصاف نہ ملنے پر ایک قوم پرست پشتون تحریک ابھر کر سامنے آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاجی لہر ملک کے طول و عرض میں قیام پذیر پختونوں میں پھیل گئی۔ ریاست بشمول مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کی نااہلی اور ان کی غلط پالیسیوں کے گن گانے والے میڈیا کے بہیمانہ کردار کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنے پڑ گئے ہیں کہ اسی ریاست کے باشندے یہ نعرہ لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں، ’’لے کر رہیں گے، آزادی۔‘‘
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت سیاسی مسائل سے لے کر اقتصادی اور معاشرتی معاملات سمیت پاکستان کو بے شمار مشکلات اور پچیدگیوں کا سامنا ہے اور یہ ملک ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو سلامتی کے مسئلہ جیسی سنگین پیچیدگی کا شکار ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے، فرشتہ جیسی معصوم اور نقیب اللہ جیسے مظلوم کو انصاف دلوانے کے لیے ایک آدھ پولیس والوں کو معطل کرنے سے اس ملک کے مسائل حل نہں ہوں گے بلکہ کئی دہائیوں سے جبرکا شکار عوام کو مصائب کے شنکجے سے نکالنا ہوگا۔ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلہ ہے۔ جب تک یہ فاصلہ قائم ہے، لوگوں کی دادرسی ممکن نہیں۔ وہ معاشرے جہاں انصاف نہیں ہوتا، تباہ ہوجاتے ہیں۔
مسائل کو حل کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک عارضی اور دوسرا مستقل۔ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ وقتی طور پر ان نعروں کو دبا کر زور زبردستی سے ان مسائل سے جان چھڑا سکتی ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے اورویسے بھی جبر مسائل کا حل نہیں۔ یہ بات عام فہم ہے کہ جابر اور ظالم حکمران مسائل کو حل کرنے کے لیے لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو ریاستیں مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، وہ لوگوں کو دبانے کے بجائے مسائل کی وجوعات معلوم کرتی ہیں اور پھر ان کو حل کرتی ہیں۔ پائیدار اور مسقتل حل کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنے سارے نظام کا نئے سرے سے جائزہ لے۔ جہاں جہاں ناانصافی ہورہی ہے، اس کا ازالہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ ملک کے تمام نظام کو نئے سرے سے مرتب کرنا اور ہر شعبے میں اصطلاحات لانا لازمی ہے۔ ملک کا موجودہ کھوکھلا نظام مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے اس فرسودہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور زبانی جمع خرچ کرنے کی کوششیں جاری رہیں اور زخموں پر عارضی مرہم پٹی باندھنے کی سعی ہوتی رہی تو یہ رحجانات مزید مسائل کو جنم دیں گے اور پاکستان جیسا ملک اس طرح کے مسائل کے طوفان کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔
نوٹ: اس مضمون کے تحریر کنندہ ایک سینئرصحافی ہیں اور ان دنوں شعبہ بین الاقوامی تعلقات سمیت سوشل سائنسس کے موضوعات پر تحقیق کررہے ہیں۔